قبرستان میں ایک قبر پر سکول کا بستہ رکھ کر بچہ قبر سے لپٹا رو رھا تھا اور کہہ رھا تھا ابو اٹھو۔ ٹیچر نے کہا ھے کل فیس لازمی لانا ورنہ اپنے ابو کو ساتھ لے کر آنا۔ اٹھو

قبرستان میں ایک قبر پر سکول کا بستہ رکھ کر بچہ قبر سے لپٹا رو رھا تھا اور کہہ رھا تھا ابو اٹھو۔ ٹیچر نے کہا ھے کل فیس لازمی لانا ورنہ اپنے ابو کو ساتھ لے کر آنا۔ اٹھو

💔 دل دہلا دینے والا منظر…
آپ کے الفاظ میں وہ کرب، وہ درد ہے جو کسی معاشرے کی بے حسی کو چیخ چیخ کر بیان کرتا ہے۔
آئیے اس منظر کو ایک مکمل تحریر میں بیان کرتے ہیں، تاکہ یہ صرف الفاظ نہ رہیں — ایک پیغام بن جائیں۔


“ابو اٹھو…!”

قبرستان میں خاموشی تھی،
بس ایک چھوٹا سا بچہ روتا جا رہا تھا،
ایک تازہ قبر سے لپٹا ہوا،
اپنا اسکول بیگ قبر پر رکھے،
سسک سسک کر کہہ رہا تھا:

“ابو… اٹھو نا…!
ٹیچر نے کہا ہے کل فیس نہ لائے،
تو ابو کو ساتھ لے کر آنا۔”

“ابو… دیکھو نا، سب بچے فیس دے کر کلاس میں بیٹھتے ہیں،
مجھے سب چڑاتے ہیں، کہتے ہیں غریب ہو، یتیم ہو…
ابو… اٹھو نا…!
مجھے کل اسکول جانا ہے،
ٹیچر ڈانٹیں گی…!”

اور وہ مٹی…
بس خاموشی سے بچے کی آہ و بکا سن رہی تھی،
نہ کوئی جواب، نہ کوئی دلاسہ۔

کب تک؟

کب تک اس معاشرے کے بچے اپنوں کو قبر سے پکاریں گے؟
کب تک “فیس نہ ہونے” کو جرم سمجھا جائے گا؟
کب ہم تعلیم کو انسان کا حق مانیں گے، نہ کہ دولت والوں کا حق؟


سوچنے کی بات:

اساتذہ علم بانٹنے والے ہوتے ہیں،
نہ کہ زخم دینے والے۔

اگر ایک بچے کو آپ کی باتوں سے اپنے باپ کی قبر یاد آ جائے،
تو شاید تعلیم کا مطلب صرف کتابیں پڑھانا نہیں،
دل جیتنا بھی ہے۔


یہ تحریر سوشل میڈیا یا تعلیمی مہم کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں اسے ویڈیو اسکرپٹ، پوسٹر، یا وائس اوور کے لیے بھی ترتیب دے سکتا ہوں۔

بس ایک بات کہوں گا —
کاش کسی بچے کو کبھی دوبارہ “ابو اٹھو” کہنا نہ پڑے… 💔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *